Tuesday, February 23, 2010

افغانستان:آپریشن کی کامیابی کے نئے اشارے

ایسے حالات میں جبکہ افغانستان میں سنہ 2001 کے بعد سب سے بڑا فوجی آپریشن جاری ہے، ماضی میں شدت پسندوں کے زیرِ اثر رہنے والے علاقوں پر کنٹرول قائم رکھنا اور وہاں تعمیرِ نو کا عمل شروع کرنا آج بھی ایک چیلنج ہے۔ حال ہی میں افغانستان میں کچھ وقت گزار کر آنے والی میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی پولیٹیکل سائنسدان فوٹینی کرسچیا نے ایسے آپریشنز کی کامیابی کو ناپنے کے لیے جدید ترین خیالات پیش کیے ہیں۔

تصویر بشکریہ تھالیا چانٹزیارا

ہلاک شدہ طالبان کی تعداد یا پھر پوست کی کاشت میں کمی کو کسی بھی آپریشن کی کامیابی کی بنیاد سمجھا جاتا ہے لیکن اگر کسی فوجی کارروائی اور اسکے بعد تعمیرِ نو کے عمل کی طویل المدتی کامیابی کو ناپنا ہو تو یہ چیزیں ’مس لیڈنگ‘ ثابت ہو سکتی ہیں۔

شدت پسند فوری طور پر اپنی ہلاکتوں کو شہری آبادی کی ہلاکتوں کی شکل دے دیتے ہیں اور پوست کی کاشت میں کمی کے اعلان سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ اب ان مقامات پر پوست کی جگہ کیا کاشت ہو رہا ہے یا پھر کہ اس مقام کی جگہ کہیں اور تو یہ عمل شروع نہیں کر دیا گیا ہے۔

اب جبکہ افغانستان میں نیٹو اور امریکی فوج کے کمانڈر جنرل سٹینلے میک کرسٹل نے اپنی توجہ شدت پسندوں کو شکست دینے سے ہٹا کر شہریوں کو بچانے پر مرکوز کرنے کا اعلان کیا ہے، تو شدت پسندی کے خلاف اس نئی حکمتِ عملی کا جائزہ لینے کے لیے نئے پیمانے بنانے کی ضرورت ہے۔

ضلعی حکام کی اپنے اضلاع میں رہائش

افغانستان میں مقامی حکومتوں کے متعدد افسران اپنے متعلقہ اضلاع میں حفاظتی خدشات کی وجہ سے نہیں رہ پاتے۔ اگر وہ ان اضلاع میں کہ جہاں انہیں تعینات کیا گیا ہے رہائش اختیار کرنے میں کامیاب رہتے ہیں تو یہ سکیورٹی میں اضافے کی مثال ہوگی۔

ہلمند کے گورنر کے ترجمان کے مطابق صوبہ کے ضلع نادِ علی کی مقامی حکومت میں ساٹھ افسران ہیں لیکن ان میں سے زیادہ ضلع میں نہیں رہتے۔ پورے ہلمند صوبے میں نو سو اسّی سرکاری افسران ہیں لیکن ان میں سے سب اپنی تعیناتی کے مقام پر موجود نہیں۔ تاہم اب حکام نے نادِ علی کو ایک ماڈل بنانے کا فیصلہ کیا ہے جہاں نوکری کرنے والوں کو زیادہ تنخواہیں دی جائیں گی۔

اشیاء کی نقل و حمل کے اخراجات

افغانستان میں تشدد اور حملوں کے خطرات کی وجہ سے اشیاء کی نقل و حمل کے اخراجات میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر کسی راستے پر ان اخراجات میں کمی آتی ہے تو یہ اچھی نشانی ہے۔ سنہ 2007 میں افغانستان کی ٹرک ڈرائیور یونین کی جانب سے لگائے جانے والے اندازوں کے مطابق افغانستان میں ایک ٹرک چلانے والا ہر برس ساڑھے چھ ہزار ڈالر سے زائد رقم ٹیکسوں اور رشوت کی مد میں دیتا ہے۔ یہ رقوم سکیورٹی حالات جانچنے کا اہم ذریعہ ہیں۔

نئی دکانوں کا کھلنا

بازاروں میں قانونی کاروبار کا پھلنا پھولنا اس بات کی نشانی ہے کہ حالات صحیح ہو رہے ہیں اور عام بازاروں میں دکانوں کا کھلنا اس بات کا غماز ہے کہ سکیورٹی اور مقامی معیشت پر عوام کے اعتماد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

دھماکہ خیز مواد کی نشاندہی

اگر مقامی آبادی کی جانب سے دیسی ساخت کے دھماکہ خیز مواد اور آئی ای ڈیز کی نشاندہی کے عمل میں اضافہ ہو تو یہ اس بات کا اعلان ہے کہ شدت پسندوں کی مقامی حمایت میں کمی آ رہی ہے۔ مرجہ اور نادِ علی میں مقامی حکام کا کہنا ہے کہ مقامی آبادی کے لیے آئی ای ڈیز کی نشاندہی کرنا بہت مشکل ہے۔ تاہم ہلمند کے گورنر کے مطابق معلومات کے تبادلے کے حوالے سے مقامی قبائلی سرداروں سے ملاقاتیں کامیاب رہی ہیں۔

سکول جانے والے بچوں کی تعداد

سکولوں کا کام کرنا ایک موثر حکومت اور والدین کا بچوں کو سکول بھیجنا حکومت اور سکیورٹی کی صورتحال پر ان کے اعتماد کا مظہر ہے۔

ہلمند کی وزارتِ تعلیم کے حکام کے مطابق صوبے میں قائم دو سو پینتیس سکولوں میں سے پچانوے بند ہیں۔ نادِ علی اور دیشی جیسے اضلاع میں سکیورٹی خدشات کی وجہ سے بچوں کو سکول بھیجنا ایک مشکل عمل ہے۔

خیال رہے کہ وزارتِ ترقیات کے مطابق سنہ 2007 میں ہلمند میں شرحِ خواندگی پانچ فیصد کے قریب تھی۔

No comments:

Post a Comment

Followers

Blog Archive