Tuesday, October 19, 2010

بلوچ طلبہ تنظیم کا انوکھا احتجاج





بلوچ طلبہ تنظیم نے انوکھا احتجاج کرتے ہوئے بلوچستان کے علاقے مشکے میں پاکستانی سیکورٹی فورسز کی جانب سے ہونے والی کارروائی کی خبریں شائع نہ کرنے اور ٹی وی چینلز پر نہ چلانے کے خلاف صوبے کے کئی علاقوں میں سوموار سے نہ صرف کئی نیوز چینلز بند کردیے ہیں بلکہ اخبارات کی تقسیم بھی روک دی۔

بلوچ طلبہ تنظیم (بی ایس او ) آزاد نے بلوچستان کے ضلع مشکے میں بلوچ مزاحمت کاروں کے خلاف سیکورٹی فورسز کی جانب سے کارروائی کی خبروں پر خاموشی اختیارکرنے کے الزام میں پیر کے روز صوبے کے مختلف بڑے شہروں خضدار، قلات، پنچگور، خاران، مچھ، مستونگ اور نوشکی میں نہ صرف قومی اور مقامی اخبارات کی تقسیم روک دی بلکہ گودار تربت اور پسنی میں کیبل پردکھائے جانے والے تمام پاکستانی نیوز چینلز کو بھی بند کردیا جبکہ بلوچی زبان میں چلنے والی وش ٹی وی کو چلانے کی اجازت دی ہے۔ اس کے علاوہ کوئٹہ سے شائع ہونے والے دو اخبارات کو بھی بک سٹالوں پر فروخت کرنے کی اجازت ملی ہے۔

بی ایس او آزاد کے ترجمان سلام صابر نے بی بی سی کو ٹیلی فون پر بتایا کہ بی ایس اونے یہ اقدام اس کے بعد اٹھایا جب چندروز قبل مشکے میں بلوچ گوریلا کمانڈر ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ کے آبائی علاقے میں سیکورٹی فورسز نے آپریشن کے دوران ڈاکٹر اللہ نظربلوچ کے بھائی ابرائم بلوچ سیمت آٹھ افراد کو گرفتارکرلیا تھا۔

بی ایس او کےمطابق سیکورٹی فورسز نے مشکے میں پندرہ دکانوں اور بیس سے زیادہ گھروں کوبھی نذرآتش کیا تھا ہے لیکن کوئٹہ میں سرکاری ذرائع نے اس کارروائی کی تردید کی ہے۔

دوسری جانب بلوچ علاقوں میں اخبارات اور نیوزچینلز پر پابندی کے بعد عام لوگوں میں کیا تاثر پایا جاتا ہے اس سلسلے میں میں نے گوادر کے لوگوں کا کہنا تھا کہ جب بلوچوں کی جانب سے کوئی غلطی ہوجاتی ہے تو پورے ملک کے میڈیا پر اس کو دکھایا جاتا ہے اور جب بلوچوں پر ظلم ہوتا ہے تو تمام چینلز خاموش ہوجاتے ہیں۔

بلوچ قوم پرستوں کاکہنا ہے کہ جولائی سے اب تک لاپتہ ہونے والے تیتیس افراد کی مسخ شدہ لاشیں مل چکی ہیں جبکہ دو کی شناخت ا بھی تک نہیں ہوسکی ہے۔

جبکہ بی ایس او آزاد کا کہنا ہے کہ سیکورٹی فورسز نے اس کے بعد صوبے میں بے گناہ بلوچوں کے خلاف کاروائی تیز کی ہے جب وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے گزشتہ ماہ کوئٹہ کے دورے کے موقع پر کہا تھا کہ مسئلہ بلوچستان کو حل کرنے کے لیے اب ڈنڈا چلائینگے۔

http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/10/101018_baloch_protest.shtml

No comments:

Post a Comment

Followers

Blog Archive