Wednesday, October 20, 2010

بلوچستان:اخبارات کی تقسیم سے انکار


بلوچستان کی انجمن اتحاد اخبار فروشان کے احتجاج پر ہاکروں نے کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں اخبارات تقسیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

ہاکروں کی ہڑتال کی وجہ سے نہ صرف کوئٹہ سے شائع ہونے والے اکثر شائع شدہ اخبارات کی کاپیاں چھپنے کے بعد پریس سے نہیں نکل سکی ہیں بلکہ بہت سے اخبارات مارکیٹ میں پہنچنے کے بعد بھی تقسیم نہ ہوسکے ۔

انجمن اخبارفروشان نے یہ قدم ایک بلوچ طلبہ تنظیم کی جانب سے ملنے والی دھمکیوں کے بعد اٹھایا ہے۔تنظیم نے کہا ہے کہ اخبارات اور ٹی وی چینلز بلوچستان کے مسئلے پر توجہ نہیں دے رہے ہیں ۔

کوئٹہ سے بی بی سی کے نامہ نگار ایوب ترین کے مطابق بلوچستان کے دارلحکومت کو ئٹہ اور صوبے کے دیگر علاقوں میں آج کوئی قومی اخبار تقسیم نہیں ہوا ہے ۔

کوئٹہ میں انجمن اخبار فروشان بلوچستان کےسابق صدر شاجی سید نور احمد شاہ نے بی بی سی کوبتایا کہ گذشتہ روز بی ایس او (آزاد)کی جانب شہر کے مختلف علاقوں میں بیس کے قریب ہاکروں سے اسلحہ کے زور پر اخبارات چھین کردھمکی دی گئی تھی کہ اگر کل دوبارہ اخبارات تقسیم کرنے کی کوشش کی تو اخبارات اور سائیکل چھین کر تشدد بھی کریں گے۔

انکا کہنا تھا کہ ’خود میرے بیٹے کریم شاہ کو یونیورسٹی میں روک کراخبارات تقسیم کرنے کی اجازت نہیں دی بعد میں میرے بیٹے نے یونیورسٹی انتظامیہ کو مطلع کیا جس نے سیکورٹی فراہم کی اور بعد میں یونیورسٹی میں اخبارات کی تقسیم ممکن ہو سکی‘۔

اس دھمکی کے بعد انجمن اتحاد اخبار فروشان نے ہاکروں کے تحفظ کی خاطر اخبارات تقسیم نہیں کیے ہیں۔ انجمن نے کہا ہے کہ جب تک حکومت کی جانب سے ہاکروں کو تحفظ نہیں دیا جائے گا اس وقت تک اخبارات تقسیم نہیں ہونگے۔

بلوچ قومی تحریک کے حوالے سے خبرچلانا تو دور کی بات ہے بلکہ ٹی وی پر ایک سلایڈ بھی نہیں چلاتے ہیں البتہ بلوچ قومی تحریک کےخلاف جو بھی خبرہواسے بطور پروپیگینڈہ شائع اور نشر کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہم نے میڈیا کابائیکاٹ کیا ہے اور جب تک میڈیا کاعملا رویہ تبدیل نہیں ہوگا اس وقت تک ہمارابائیکاٹ جاری رہے گا
کریمہ بلوچ
نور احمد شاہ کے مطابق’ ڈی آئی جی کوئٹہ ( آپریشن ) حامد شکیل سے بھی ہم نے بات کی تو انہوں نے کہا کہ ہم پانچ سوہاکروں کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتے ہیں جس کےبعد ہم نے آج احتجاجاً اخبارات کی تقسیم روک دی ہے‘۔

سید نور احمد شاہ نے حکومت اور اخبار مالکان سے مطالبہ کیا ان کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جائیں اور جس سیاسی جماعت کے ساتھ مسئلہ ہے اس کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے ۔

اس موقع پر ایک اٹھارہ سالہ ہاکرغلام حسین نے بتا یا کہ کل صبح وہ کواری روڈ اور سرکی روڈ پر اخبار تقسیم کر رہا تھا تو ایک نامعلوم شخص نے اس پر پستول تان کر کہا کہ اگرکل اخبار دوبارہ تقسیم کیا تو اخبارات چھینے کے ساتھ کپڑے اتاردیں گے۔

’اس وجہ سے ہم جیسے غریب ہاکر دو روپے کی کمیشن کی خاطر تو اپنا بے عزتی نہیں کرسکتے ہیں ۔اور آئندہ بھی اگر تحفظ ملاتو اخبارات تقسیم کریں گے ورنہ مشکل ہے‘۔

اخبارات کی تقسیم روکنے پر جب کوئٹہ سے شائع ہونے والےروزنامہ ( دنیا ) کے مالک نعمت اللہ اچکزئی سے بات کی توانکاکہنا تھا کہ کچھ روز قبل بلوچ طلبہ تنظیم بی ایس او (آزاد)نے دھمکی دی تھی کہ انہیں اخبارات سے شکایت ہے کہ اخبارات میں ان کی خبروں کی صحیح طریقے سے اشاعت نہیں ہو رہی ہے ۔

انکا کہنا تھا کہ ’بی ایس او کے نمائندوں نے براراست ہم سے کوئی رابطہ نہیں کیاہے بلکہ کل انہوں نے بلوچ علاقوں کوئٹہ سے شائع ہونے والے بعض اخبارات کو بھی نذرآتش کیا ہے‘۔

بلوچ قومی تحریک کے حوالے سے خبر چلانا تو دور کی بات ہے بلکہ ٹی وی پر ایک سلائیڈ بھی نہیں چلاتے ہیں البتہ بلوچ قومی تحریک کےخلاف جو بھی خبرہواسے بطور پروپیگنڈہ شائع اور نشر کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہم نے میڈیا کابائیکاٹ کیا ہے اور جب تک میڈیا کا رویہ تبدیل نہیں ہوگا اس وقت تک ہمارابائیکاٹ جاری رہے گا۔
ترجمان بی ایس او
پاکستانی نیوز ٹی وی چینلز اور اخبارات کی تقسیم کی بندش پر جب میں بلوچ طلبہ تنظیم بی ایس او (آزاد) کی خاتون وائس چیرپرسن کریمہ بلوچ سے بات کی توانہوں نے کہا کہ پاکستانی میڈیا جانبدار ہو کر پاکستانی فوج کی طرح بلوچستان کے عوام کے ساتھ برتاؤ کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا ’بلوچ قومی تحریک کے حوالے سے خبر چلانا تو دور کی بات ہے بلکہ ٹی وی پر ایک سلائیڈ بھی نہیں چلاتے ہیں البتہ بلوچ قومی تحریک کےخلاف جو بھی خبرہواسے بطور پروپیگنڈہ شائع اور نشر کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہم نے میڈیا کابائیکاٹ کیا ہے اور جب تک میڈیا کاعملا رویہ تبدیل نہیں ہوگا اس وقت تک ہمارابائیکاٹ جاری رہے گا‘۔

واضح رہے کہ اس سے دودن قبل بلوچ طلبہ تنظیم بی ایس او (آزاد) نے کوئٹہ سے باہر صوبے کے اکثر بلوچ علاقوں میں نہ صرف اخبارات کی تقسیم روک دیاتھا بلکہ کیبل پر چلنے والے پاکستانی نیوز چینلز کوبھی بند کردیا ہے

No comments:

Post a Comment

Followers

Blog Archive