Thursday, October 21, 2010

چیچنیا کے حالات قابو میں نہیں



گزشتہ تقریباً ایک سال سے ماسکو شورش زدہ چیچنیا کو مستحکم اور ترقی پذیر صوبے کے طور پر پیش کر رہا تھا۔ لیکن منگل کو ہونے والے حملے نے ثابت کر دیا ہے کہ پرامن حالات کوئی زیادہ یقینی نہیں ہیں۔

بی بی سی کی نامہ نگار شاشہ شلیچٹر چیچنیا کی صورتِ حال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ چیچنیا دو صدیوں سے روس کے تاج میں ایک کانٹا رہا ہے۔

کئی زار اور روسی حکمران اس جنوبی پہاڑی خطے کو قابو کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن انہیں کامیابی نہیں ملی۔

چچن عوام کے ذہنوں میں دوسری جنگ عظیم کے بعد روسی آمر سٹالن کی جانب سے جرمن نازیوں کی مدد کے الزام میں چیچن لوگوں کو بڑی تعداد میں سائبیرا اور وسطی ایشیا بھیجنے کا واقع تازہ ہے۔

موجودہ بدامنی نوے کی دہائی کے اوائل میں سوویت یونین کے انہدام یا زوال کے بعد شروع ہوئی۔

چیچنیا کے اعلان آزادی نے بعد باغیوں اور ملیشیا گروہوں کے درمیان تیل اور دیگر وسائل پر قبضے کی جنگ کی شکل اختیار کر لی۔

اغوا ایک بڑا کاروبار بن گیا۔ انیس سو چورانوے میں صدر یلسن نے باغیوں کو کچلنے کے لیے روسی فوجی روانہ کیے لیکن چیچن مزاحمت نے صدر یلسن کے جلد کامیابی کی وعدہ پورے نہیں ہونے دیے۔


دارالحکومت گروزنی کی ایک تباہ حال عمارت
نئی صدی کے آغاز پر صدر پیوٹن نے دوبارہ فوج کشی کی۔ اس مرتبہ کی جانے والی کارروائی تیز اور ظالمانہ تھی اس کارروائی میں دارالحکومت گروزنی پر قبضہ تو ہو گیا لیکن اس کے بعد ایک اور خونی جنگ کا آغاز ہوگیا ہے۔

مغربی ممالک نے اس پر احتجاج کیا لیکن احتـجاج کا یہ سلسلہ گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے امریکی حلموں کے بعد بند ہو چکا ہے۔

اس کے بعد روس نے چیچن باغیوں کو عالمی دہشت گرد گروہ کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا اور خود چیچنز نے بھی اس الزام کو غلط ثابت کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔

کریملن نے گزشتہ برس چیچن علیحدگی پسندوں کے خلاف ایک دہائی پر محیط فوجی کارروائی کو کامیاب قرار دیتے ہوئے اس کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔

چیچنیا ماسکو نواز صدر رمضان قاروف کے زیر انتطام پرامن ہے لیکن وقتاً فوقتاً ہونے والے پرتشدد واقعات یاد دلاتے ہیں کہ حالات مکمل طور پر قابو میں نہیں آئے ہیں۔

No comments:

Post a Comment

Followers

Blog Archive