Thursday, October 21, 2010

سعودی شہزادے کو عمر قید کی سزا


برطانوی عدالت نے شاہ عبداللہ کے اس نواسے کو عمر قید کی سزا سنا دی ہے جن پر لندن کے ایک ہوٹل میں اپنے ذاتی ملازم کو قتل کرنے کا الزام ثابت ہوگیا تھا ۔

شہزادہ سعود عبدالعزیز بن نصر السعود کو کم از کم بیس برس قید کی سزا دی گئی ہے۔

جج مسٹر جسٹس بین نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے مجرم شہزادے سے کہا ’تم اپنے ملازم پر مکمل اختیار اور اعتماد کی علامت تھے، تاہم تم نے اپنے اختیار کو بہیمانہ طور پر استعمال کرتے ہوئے اپنے ملازم کے اعتماد کو پاش پاش کردیا ، میں سمجھتا ہوں کہ تمہیں اس کی پرواہ ہی تھی کہ تمارے عمل سے تمارا ملازم کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور وہ مر بھی سکتا ہے‘۔

جسٹس بین نے کہا کہ سزا کا تعین حیثیت سے نہیں ہوتا۔’میں سزا نرم یا نہ سخت اس وجہ سے نہیں کرونگا کہ تمہارا تعلق سعودی شاہی خاندان سے ہے بلکہ یہ جرم کے مطابق ہوگی تاہم یہ ایک غیر معمولی صورتحال ہے کہ میرے سامنے جو مجرم کھڑا ہے وہ شہزادہ ہے‘۔

’ سزا کا تعین حثیت سے نہیں ہوتا، میں سزا نرم یا نہ سخت اس وجہ سے نہیں کرونگا کہ تمہارا تعلق سعودی شاہی خاندان سے ہے بلکہ یہ جرم کے مطابق ہوگی تاہم یہ ایک غیر معمولی صورتحال ہے کہ میرے سامنے جو مجرم کھڑا ہے وہ شہزادہ ہے‘

جسٹس بین
سعودی شہزادے کو ابتدا میں یہ گمان تھا کہ شاہی خاندان کا فرد ہونے کے باعث وہ سزا سے بچ جائیں گے۔

چونتیس سالہ شہزادے نے ملازم کو ہلاک کرنے کا اعتراف کیا مگر عمداً قتل کرنے سے انکار کیا۔ واضح رہے کہ شہزادے نے جس وقت اپنے ذاتی ملازم کے قتل کا ارتکاب کیا وہ نشے میں دھت تھے۔ یہ قتل پندرہ فروری کو ہوا تھا۔

برطانوی پولیس نے عدالت کو بتایا کہ ایسے شواہد ملے ہیں کہ شہزادے کے اپنے ملازم کے ساتھ جنسی روابط تھے اور وہ دونوں ایک ہی کمرے میں ٹھہرتے تھے۔ پولیس نے ایک ایسی ویڈیو بھی عدالت میں پیش کی تھی جس میں شہزادہ سعود عبد العزیز اپنے ملازم کو ہوٹل کی لفٹ میں پیٹتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

پولیس کے مطابق بندر بن عبد العزیز کی لاش ہوٹل کے کمرے سے برآمد کی گئی اور ان کے جسم خصوصاً ان کےگالوں، ہونٹوں، کانوں اور بائیں آنکھ کے نیچے کاٹنے کے نشانات ہیں اور پولیس کا خیال ہے کہ اس قتل کے جنسی محرکات ہیں۔


برطانوی پولیس نے بندر عبد العزیز کی لاش کو لندن کے ایک ہوٹل کے کمرے سے برآمد کیا تھا
سعودی شہزادے کے وکیل نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ ان کے مؤکل پر ہم جنس پرستی سے متعلق الزامات کو خفیہ رکھنے کا حکم دے کیونکہ اسلامی قانون کے مطابق ہم جنس پرستی کی سزا موت ہے۔

جیوری صرف ڈیڑھ گھنٹے کی سماعت کے بعد اس نتیجے پر پہنچ گئی کہ شہزادے سعود عبد العزیز نے اپنے ملازم کو قتل کیا تھا۔ برطانوی پولیس افسر جان میکفرلین نے جیوری کے فیصلے کے بعد کہا’ کہ برطانیہ میں کوئی شخص خواہ وہ کتنا ہی باحیثیت کیوں نہ ہوں قانون سے بالا نہیں ہے‘۔

سعودی شہزادے نے برطانوی پولیس کو بتایا کہ ان کے والد سعودی بادشاہ عبداللہ کے بھیتیجے ہیں جبکہ ان کی ماں شاہ عبد اللہ کی بیٹی ہیں۔

No comments:

Post a Comment

Followers

Blog Archive